فوتگی اور آ ج کے رسم رواج
جب ہم چھوٹے ہوتے تھے تو اگر آ س پڑوس میں کوئی فوتگی ہوتی تھی تو ایک خوف کا عالم ہوتا تھا ایسا لگتا تھا کہ کوئی راکاس پھر گیا ہے لیکن وقت کے ساتھ موت والی دہشت تو ختم ہوتی گئی بلکہ بہت سارے نئے رسم و رواج پتا نہیں پیدا کئے گئے یا خود بخود آ گئے.
ایک روایت کم سے کم گاؤں میں یہ تھی کہ جو پہلا کھانا تدفین کے بعد کھلایا جا تھا وہ بہت سادہ ہوتا تھا سفید چاول اور چنے کی دال ملا کر بس ایک ہی ڈش بنتی تھی جو سب بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کھاتے تھے
ایک یہ بھی رواج تھا کہ جو عورتیں زنان خانے میں تعذیت کے لئے جاتی تھیں وہ ادھر خاموشی سے اپنی حیثیت یا رواج کے مطابق کچھ پیسے اہل خانہ کے کسی بڑے کے تکیے جو رواج کے مطابق گاؤں میں ہوتا ہے اس کے نیچے یا چادر کے نیچے رکھ دیتی تھیں کسی نے دیکھا کسی نے نہیں اور مرد بھی باہر مردان خانے میں یا اس وقت یا مناسب وقت پہ دے تے تھے اس سے اس گھرانے کو جو فوری ضرورت ہوتی تھی اس میں مدد مل جاتی تھی اور ایک طرح سے اپنائیت کا بھی احساس ہوتا تھااور یہ ایک طے شدہ امر تھا کہ پہلا کھانا تدفین کے بعد عورت کے میکے سے ہوتا تھا کیونکہ ایک ہی قسم کے چاول بنتے تھے تو اپنی حیثیت کے مطابق بنوا لیتے تھے کوئی یہ نہیں کہتا تھا کہ آ پ غریب ہو تو نہیں کریں کم سے کم کس کی حیثیت اس غم کے وقت طے نہیں کی جاتی تھی اور دوسری بات کہ جو جانے والا یا والی ہوتی تھی ہو سکتا ہے کہ وہ کتنا بیمار رہا یا رہی ہوگی یا اگر اچانک بھی کوئی مر جائے تو کتنا دکھ اور غم پیچھے والون پر گزر رہا ہو تا ہے اور اس وقت کھانے میں کیا ہے کیا نہیں کم سے کم گھر کے افراد کو فکر نہیں ہوتی.
اب جدید دور کے نئے رسم و رواج جس میں مرنا بھی ایک فیسٹیول جیسا ہو گیا ہے ابھی غسل تک کا انتظام نہیں ہوتا تو کھانے کا رولا شروع ہو جاتا ہے تدفین تو ابھی دور لیکن سوشل میڈیا میں اعلان ہوتا ہے کسی نے دیکھا کسی نے نہیں
پھر جس پہ کھانا لگتا ہے وہ اگر غریب ہے تو کوئی رشتہ دار جو کچھ امیر اور اپنے آپ کو معتبر بھی پیسے کی وجہ سے سمجھتا ہے اس کی طرف سے اعلان ہوتا ہے کہ کھانا میری طرف سے اور بریانی کی دیگیں لازمی اترتی ہیں اور جو گھر والے پہلے ہی ایک تو غم سے نڈھال اوپر سے تھکے ہوئے وہ اس فکر میں اپنا غم بھلا کر کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کوئی کھانا کھائے بغیر تو نہیں چلا گیا کیونکہ بعد میں باتیں نہ ہو.
شہرون میں تو یہ رواج کم دیکھنے میں آیا ہے کیونکہ شاید لوگوں کے پاس ٹائم بھی کم ہوتا ہے اور شاید اپنی زندگی کو بہتر بنانے کیلئے لوگ ایک سے زیادہ نوکری بھی کرتے ہیں جو بھی ہے اچھی بات ہے کہ کم وقت کے لئے تعزیت کے لئے بیٹھتے ہیں لیکن یہ روایت نہیں کہ ہر شخص جو تعزیت کے لئے آ یا ہے اس کو چائے کا پوچھا جائے یا اگر گرمی ہے تو کولڈڈرنک صرف اگر کھانے کا ٹائم ہے اور کھانا لگا ہوا ہوتا ہے تو اس کو کھانے کے لئے کہا جاتا ہے لیکن گاؤں والوں نے تو اپنے ہی رواج شروع کردیئے کہ ہر تعزیت کے لئے آ نے والے کو چائے اور بوتل لازمی دی جاتی ہے اور امیر کو چھوڑ دیں لیکن غریب بھی دیکھا دیکھی میں لازمی کرے گا یہ کوئی خوشی کا موقع نہیں لیکن کرنا ہے پھر جب حساب کتاب ہوتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ کتنا دودھ ادھار پر لیا گیا اور قرض پہ قرض.
تین دن کا کھانا تو رشتہ داروں کی طرف سے ہوتا ہے لیکن وہ بھی پورے خاندان والوں کے لئے صرف گھر والوں کے لئے نہیں اور اس میں بھی فرمائش ہوتی ہے کہ اب روزانہ جہوا نہیں کچھ الگ بنوائیں اور اگر کوئی غریب ہے تو اس کا تو اللہ ہی مالک ہے لیکن ظاہر ہے باتیں تھوڑی بنوانی ہیں کرنا ہے چاہے قرض لینا پڑے..
اس کے بعد اگر گاؤں کا وڈیرا یا کوئی سیاسی شخصیت خاص طور پر اگر الیکشن نزدیک ہو تو وہ ایڈوانس میں بتائے گا کہ میں تعزیت کے لئے آ رہا ہوں فلاں ٹائم پر اور اس کے ساتھ لازمی پچاس سے زائد لوگ ہوتے ہیں اور ان کی تعزیت کتنی مہنگی پڑتی ہے یہ کسی غریب سے پوچھیں کیوں کہ ان کے لئے تازہ فروٹ سے لے کر ڈرائی فروٹ چائے کولڈ ڈرنک وغیرہ کا انتظام ہوتا ہے اور تصویریں سوشل میڈیا پر لازمی رکھی جاتیں ہیں لیکن ان وڈیروں سے یہ نہیں ہو تا کہ خاموشی سے کم سے کم کچھ رقم گھر والوں کے ہاتھ پر رکھ دیں.
پھر تین دن بعد سوئم جس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں لیکن کرنا لازمی ہے اور وہ بھی زور شور سے. یہ بھی لازمی ہوتا ہے کہ سات میٹھی ڈشیں بنائی جاتی ہیں جن پر ختم یا فاتح دی جاتی ہے باقی بریانی قورمہ سبزی یہاں تک کہ رائتہ اور سلاد بھی.
بات یہان پر ختم نہیں ہر جمعرات کو ایک سال تک کچھ میٹھا بنا کر فاتح پڑھ کر یا تو چھوٹے بچوں کو کھلایا جاتا ہے یا مسجد میں یا پڑوس میں بھیجا جاتا ہے چلیں اگر مان لیں کہ بچے یا کوئی کھا لیتا ہے لیکن کیا اس کی کوئی شرعی حیثیت ہے اور جس کے پاس اپنے کھانے کے لئے نہیں وہ بھی دنیا داری کے لئے کرتا ہے
اب ایک رواج جو گاؤں میں ہے کہ مرنے والے کے ثواب کے لیے بڑا کھانا جس میں نہ صرف پورا گاؤں مدعو ہوتا ہے لیکن دور دراز کے دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی بلایا جاتا ہے اور کم سے کم میں نے کسی کو کھانے کے بعد مرنے والے کیلئے دعاء مغفرت کرتے نہیں دیکھا بلکہ ایک جشن کا سماں ہوتا ہے اور ہر کوئی کہتا ہے کہ فلاں نے اتنا کیا اس نے کم کیا اور سب ایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوشش کرتے ہیں اور ناک اونچی رکھنے کے لیے قرضہ تک لیا جاتا ہے.
یہ سب اسلام اور سنت رسول سے ناواقفیت کی وجہ سے ہے.
ہم نے اچھی روایات چھوڑ کر فضول رسومات کو اپنا کر اپنے لئے مشکلات پیدا کر دی ہیں. ایک کمیونٹی سسٹم ہونا چاہئے اور کم سے کم فوتگی کے ٹائم سب کے لئے چاہے امیر یا غریب ہو ایک ہی شریعت کے مطابق کفن دفن کھانا تین دن کا ایک جیسا ہونا چاہیے.
ہم جو پیسے شادی کے موقع پر ایک دوسرے کو دیتے ہیں وہ ہمیں کسی کے مرنے اور بیماری کے وقت خاموشی سے گھر والوں کو دینے چاہئیں.
اگر کوئی غریب ہے تو تین دن کے بعد اس گھرانے کا مل کر خیال رکھنا چاہیے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ تین دن کے بعد کسی کے گھر میں فاقوں کی نوبت ہو اور اگر آپ کا پڑوسی بھوکا ہے تو ہماری بھی پکڑ ہو گی.
اللہ ہم سب کو اسلام کی اصل روح اور سنت کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے.
Comments
Post a Comment
Nice