بینظیر انکم سپورٹ پروگرام /احساس پروگرام
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جولائی 2008 میں پاکستان میں شروع کیا گیا جس کا مقصد تھا کہ جو لوگ 5000 سے کم آ مدنی والے ہیں ان کو کچھ مدد ہو جائے کم سے کم کھانے پینے کی اشیاء کے لئے. شروع می5.7 ملین خاندان اس میں رجسٹرڈ تھے جو اب 7.7 ہو گئے ہیں. ہر تین ماہ کے بعد ان کو 7000 ملتے ہیں جو ٹوٹل 5.5بلین بنتے ہیں. اس کے بعد احساس پروگرام کے تحت ملتے ہیں. تحتملح2000
کورونا کی وبا کے دوران ہر خاندان کو احساس پروگرام کے تحت 12000 دیے گئے کیونکہ اس ہ وقت بیروزگاری ہو گئی تھی لوگ گھروں تک محدود ہو گئے تھے اور بینک ورلڈ نے بھی قرض دیا تقریباً 15 ملین خاندان کو 203 بلین دیے گئے.
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت کتنے پروگرام دس سال تک چلے لیکن کرپشن کی وجہ سے بند ہو گئے.
بات یہ نہیں کہ کوئی پروگرام اچھا یا برا ہے مسئلہ دونوں میں برابر ہے عوام اور حکومت کیونکہ ہم اصل میں یا تو ھڈ حرام ہیں یا ہمیں خان بوجھ کر بنایا جا رہا ہے نہ ہم محنت کے حق میں ہیں.
کیا آ پ سمجھتے ہیں کہ مفت میں اگر 2000 ہر مہینے اور ہر تین ماہ کے بعد 7000 مل رہے ہیں یہ ہماری غربت کم کر رہے ہیں.
صبح سویرے سے لائنوں میں عورتیں کھڑی ہوتی ہیں اور 2000 کے بجائے 1800 دئے جاتے ہیں اور اگر یہ گھروں میں آ کر دے تے ہیرو 1600 دے حرارت کر 2000 کی سائن لیکر جاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تمہاری خر چی ہے.
جو عورتیں کسی کے گھروں میں کام کرتی ہیں وہاں سے وہ تین تین دن چھٹی کر لیتی ہیں وہ بھی بغیر بتائے اور یہ وہ گھر ہیں جہاں خود عورتیں نوکری کرتی ہیں اور وہ اپنے باس سے نہیں ڈرتین جتنا ان کام کرنے والی سے کیونکہ ان کو آ رام سے دوسرا گھر مل جا تا ہے اور وہ جو خود کام کر کے آ ہی ہوتی ہے آ تے کے ساتھ گھر کے کام میں لگ جاتی ہے
کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم جو پیسے فری میں دے کر لوگوں کو کام کاج کی عادت نکال کر صرف اپنے ووٹ بینک بڑھا نے کے لیے کر رہیں ہیں ان پیسوں سے فیکٹریاں لگائیں
اگر نہی تو اسکول کھولین.
چھوٹے کاروبار ان کو کھو ل عوسکیں کو کھول کر دیں تا کہ وہ با عزت طریقے سے اپنی زندگی گزاریں نا ک پورا پورا دنلائنوں میں کھڑے ہو کر کچھ بیھو ش ہوہو کر گر پڑیں لوگوں کے سامنے. اپنی عزت نفس کو بھی داؤ پہ لگائیں
کیا یہ محاورہ نہیں کی مچھلی کھانے سے بہترین ہے کہ مچھلی پکڑنا سکھا دیں
کیا ہمارے سامنے حضور پاک کا واقعہ نہیں جب ایک نوجوان ان کے سامنے آ یا کچھ مانگنے تو آ پ نے اس کو کہا کہ اگر کلھاڑی ہے تو لکڑیاں کاٹ کر آ ؤ.
پھلے ہی ہم ھڈ حرام رہی سہی کثر یہ جو پروگرام اور دسترخوان کا کلچر آ گیا ہے کہ کھاؤ بھی اور لے کر بھی جا ہین
سب سے زیادہ سفید پوش طبقہ اور مڈل کلاس پریشان ہے جو نہ تو مانگ سکتا ہے نہ شرما حضوری مین اپنی داستان لوگوں کے سامنے پیش کرے گا.
ایک مہینے میں تین دن میری کام والی نے چھٹی کی او 800 کرا یہ دے کر 1000 لے کر آ ئ اور جن لوگوں سے بھی میں نے بات کی سب کا یہ ہی رونا تھا کھ رمضان میں پریشانی ہوئی
اب بھی ٹائم ہے بنگلہ دیش سے سبق لیں جس نے اپنی عورتوں کو با عزت طریقے سے روزگار کمانے کے ساتھ 37% women empowerment تک لے آئے
اس ملک میں پھلے ہی بھیک مافیا کم نہیں جو ہم اس کو اور بڑھا رہے ہیں.
ہاں جو عورتیں بوڑھی ہیں یا معذور ہین ان کا حق ہے ان کو اچھے اور شفاف طریقے سے ان کے گھر پر بغیر کسی ایجنٹ کے پوری رقم پہنچائیں. باقی ھٹی کٹی جوان عورتوں کو کام سکھائیں اگر وہ گھر سے باہر نہیں نکل سکتیں تو ان سے گھر بیٹھے بھی کام دے کر ان کو باوقار طریقے سے کام کروا سکتے ہی. ھمارےملک میں ہاتھ کا کام ہینڈی کرافٹس باھر بہت مقبول ہے اس کو با قاعدہ صنعت کا درجہ دے کر عورتوں کو روزگار ملے گا.
کاش کہ میری بات کسی دل میں اتر جائے. روگون
Comments
Post a Comment
Nice